Muhammad Iqbal Day Urdu Poetry

Muhammad Iqbal Day Urdu Poetry is a tribute to the visionary poet, philosopher, and national hero of Pakistan—Allama Iqbal. His timeless verses awaken the soul, inspire self-awareness, and ignite a passion for progress and unity among Muslims. Explore these 2-line Iqbal Day shayari to honor his legacy, share on social media, or include in school and college programs.

یومِ اقبال کی اردو شاعری علامہ محمد اقبالؒ کے فکر و فلسفہ کو خراجِ عقیدت پیش کرتی ہے، جنہوں نے مسلمانوں کو خودی، بیداری اور اتحاد کا پیغام دیا۔ ان کے اشعار آج بھی نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ یہ دو مصرعوں پر مشتمل شاعری یومِ اقبال کے موقع پر تقاریب، سوشل میڈیا اور تعلیمی سرگرمیوں کے لیے بہترین انتخاب ہے۔’

Muhammad Iqbal Day Shayari

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں
نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
تو شاہین ہے، پرواز ہے کام تیرا
تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
خودی کا راز نہاں لا الہ الا اللہ
خودی ہے تیغ، فساں لا الہ الا اللہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہین ہے، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
جوانوں کو سوزِ جگر دے
مرا عشق، میری نظر دے
خودی میں ڈوب جا اے میرِ کارواں
یہی ہے تیرا رازِ جاوداں
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقرِ خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارا
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
دیارِ عشق میں اپنا مقام پیدا کر
نیا زمانہ، نئے صبح و شام پیدا کر
تہذیبِ حاضر کا گلا گھونٹ دیا جائے
کیا بات ہے کہ مردِ قلندر نہیں رہا
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے، ادھر نکلے، ادھر ڈوبے، ادھر نکلے